حال ہی میں پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک بار پھر تنازعات کی لہر دوڑ گئی ہے، جب معروف ٹک ٹاکر مناہل ملک کے بعد ایک اور سوشل میڈیا اسٹار زرناب شاستری کی مبینہ نازیبا ویڈیوز لیک ہونے کی خبریں سامنے آئیں۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر یہ افواہ بھی گردش کر رہی ہے کہ اگلا نام فرح حیدر کا ہو سکتا ہے۔ یہ واقعات نہ صرف ڈیجیٹل پرائیویسی کے مسائل کو اجاگر کر رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا کے استعمال اور اس سے جڑے خطرات پر بھی بحث چھڑ گئی ہے۔
مناہل ملک کا تنازع: ایک بار پھر سرخیاں
مناہل ملک، جو اپنی ٹک ٹاک ویڈیوز کے ذریعے لاکھوں فالوورز کی توجہ حاصل کر چکی ہیں، حالیہ مہینوں میں متعدد بار تنازعات کا شکار رہی ہیں۔ اپریل 2025 میں ان کی مبینہ نازیبا ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جنہیں انہوں نے مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے تیار کردہ جعلی مواد قرار دیا۔ مناہل نے اپنے دفاع میں کہا کہ انہوں نے اس معاملے کی شکایت وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) میں درج کرائی ہے اور امید ظاہر کی کہ ذمہ دار افراد جلد قانون کے شکنجے میں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اب ان تنازعات سے متاثر نہیں ہوتیں اور انہوں نے اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا ہے۔
مناہل کے اس بے پروا رویے نے جہاں کچھ مداحوں کی حمایت حاصل کی، وہیں ناقدین نے اسے شہرت کے حصول کی ایک اور کوشش قرار دیا۔ گزشتہ سال 2024 میں بھی ان کی ویڈیوز لیک ہونے کے بعد انہوں نے عارضی طور پر سوشل میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کی تھی، لیکن دو ماہ بعد ہی وہ واپس لوٹ آئیں۔
زرناب شاستری: نیا تنازع
مناہل کے بعد اب زرناب شاستری کا نام سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔ زرناب، جو ایک ابھرتی ہوئی سوشل میڈیا شخصیت ہیں، کی مبینہ نازیبا ویڈیوز لیک ہونے کی خبریں نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی ہے۔ تاہم، ان ویڈیوز کی صداقت کی تصدیق نہیں ہو سکی، اور نہ ہی زرناب شاستری کی جانب سے اس بارے میں کوئی باضابطہ بیان سامنے آیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کے درمیان اس معاملے پر بحث جاری ہے، جہاں کچھ لوگ اسے پرائیویسی کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں، جبکہ دیگر اسے محض توجہ حاصل کرنے کی کوشش سمجھتے ہیں۔
فرح حیدر: اگلی افواہ؟
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی افواہوں کے مطابق، اگلا نام فرح حیدر کا ہو سکتا ہے۔ فرح حیدر، جو ایک معروف ٹک ٹاکر اور سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں، ابھی تک اس تنازع سے براہ راست منسلک نہیں ہیں۔ تاہم، سوشل میڈیا پر ان کے نام کے ساتھ افواہوں نے صارفین کے درمیان تجسس پیدا کر دیا ہے۔ یہ افواہیں کہیں نہ کہیں ڈیجیٹل ہراسانی اور سائبر کرائم کے بڑھتے ہوئے خطرات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر پرائیویسی کے خطرات
ان واقعات نے ایک بار پھر سوشل میڈیا پر پرائیویسی کے تحفظ اور آن لائن ہراسانی کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے جعلی ویڈیوز بنانا اب کوئی مشکل کام نہیں رہا، اور اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال نہ صرف افراد کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کو بھی فروغ دیتا ہے۔

سوشل میڈیا صارفین کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنی نجی معلومات اور مواد کو کس طرح محفوظ رکھتے ہیں۔ ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ مضبوط پاس ورڈز، دو مرحلاتی تصدیق (Two-Factor Authentication)، اور مشکوک لنکس سے اجتناب جیسے اقدامات پرائیویسی کے تحفظ میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
معاشرتی اور قانونی پہلو
ان واقعات نے پاکستانی معاشرے میں سوشل میڈیا کے استعمال اور اس کے اثرات پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹک ٹاکرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو اپنی فیملی اور معاشرتی اقدار کا خیال رکھنا چاہیے، جیسا کہ اداکارہ مشی خان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ٹک ٹاکرز کو فحاشی کے بجائے مثبت پیغامات کو فروغ دینا چاہیے۔
دوسری جانب، قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سائبر کرائم کے خلاف سخت قوانین پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ FIA نے ماضی میں اس طرح کے واقعات کی تحقیقات کی ہیں، لیکن ابھی تک ان معاملات میں خاطر خواہ پیش رفت نظر نہیں آئی۔ مناہل ملک کی جانب سے درج کرائی گئی شکایات کے نتائج بھی ابھی تک سامنے نہیں آئے۔
نتیجہ
مناہل ملک، زرناب شاستری، اور فرح حیدر سے منسوب افواہوں نے پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ واقعات نہ صرف ڈیجیٹل پرائیویسی کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا کے استعمال کے معاشرتی اور اخلاقی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صارفین اپنی ذاتی معلومات کے تحفظ کے لیے زیادہ محتاط رہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس طرح کے سائبر جرائم کے خلاف سخت اقدامات اٹھائیں۔